

کراچی( رپورٹ نیوز لیب ) حکومت نے اب پیٹرولیم لیوی میں مزید اضافہ کر کے اسے 105 روپے فی لیٹرکرنے کا فیصلہ کیا ہے ،اس طرح ایک موٹر سائیکل سوار اب کم ازکم پیٹرول پر 3600 روپے ماہانہ ٹیکس دے گا،کراچی میں منعقدہ ایک سیمنار سے خطاب کرتے ہوئے پاکستان کے سابق وزیرخزانہ اور ممتازکاروباری شخصیت مفتاح اسماعیل نے کہا ہے کہ پاکستان مزید قرضوں میں دھنستا جارہا ہے، معاشی ترقی کے قابل نہیں رہا، ۔پاکستان ہر سال 100 بلین ڈالر کے قرضہ لے رہا ہے۔ہر سال 20 بلین ڈالر واپس کرنے ہوتے ہیں۔کچھ قرضوںکی واپسی میں ہمیں عارضی ریلیف مل جاتا ہے۔اس سال میں بجٹ خسارہ 8500 ارب روپے ہوگا۔ہر پاکستانی 50 روپے ٹیکس دیتا ہے۔کل آمدنی میں 60 فیصد صوبوں کو چلا جاتا ہے۔آج صوبے امیر اور وفاق غریب ہے۔وفاق اپنے اخراجات کو پورا کرنے کے لیے ملکی اور غیر ملکی اداروں سے قرضہ لے رہا ہے۔پاکستان کی معاشی ترقی کی شرح ڈھائی فیصد تک ہے۔صوبے ٹیکس نہیں لیتے۔تنخواہ دار طبقے کو ٹیکس دینا پڑرہا ہے۔زرعی اراضی پر ٹیکس نہیں ہے۔ہمیں ٹیکس اصلاحات کرنی ہوں گی۔حکومت کو امیر لوگوں سے ٹیکس لینے میں ڈر لگتا ہے۔اب آئندہ دنوں میں پیٹرولیم لیوی 105 روپے ہوجائے گی۔ایک موٹر سائیکل سوار ماہانہ پیٹرول کی مد میں 3600 روہے ماہانہ ٹیکس دے گا۔حکومت ایسے ٹیکس لگارہی ہے جس سے معیشت کو نقصان ہورہا ہے۔صنعت کاروں پر سپر ٹیکس لگانا معیشت کے لیے بہتر نہیں ہے۔انہوں نے کہا کہ اشرافیہ سے ٹیکس لیں گے تو ملک ترقی کرے گا۔آج ملک میں دو کروڑ 70 لاکھ بچے اسکولوں سے باہر ہیں۔تعلیم نظام میں بہتری لانا ہوگی ۔تعلیم کی بہتری کے لیے بچوں کو وظیفہ دینا ہوگا۔بلدیاتی نظام کو یونین کونسل سطح پر اختیارات دینے ہوں گے۔مسائل کے حل کے لیے چھوٹے صوبے بنانے ہوں گے۔مسلح افواج نے بھارت سے جنگ میں کامیابی حاصل کی ہے۔ اب ہمیں تعلیم صحت ۔روزگار ۔غربت اور معیشت کی بہتری کے لیے جنگ لڑنی ہوگی اور کامیابی حاصل کرنا ہوگی، آئی ایم ایف کی شرائط ماننا اب مجبوری بن چکی ہے۔انھوں نے کہا کہ ملک میں ایساکوئی شخص نہیں جوکسی نہ کسی صورت ٹیکس نہ دیتا ہو، 60 فیصد بجٹ صوبوں کو چلاجاتا ہے مگر ان کی کارکردگی صفر ہے۔ صوبے اپنا ٹیکس جمع نہیں کرتے مرکز پر بوجھ بڑھ رہا ہے، پاکستان کے 40 فیصد بچے اسکول جانے سے محروم ہیں، تعلیم کے بغیر کوئی قوم ترقی نہیں کر سکتی۔سندھ میں 60 فیصد پانچویں جماعت کے طلبہ دوسری جماعت کا سوال حل نہیں کرسکتے، صوبے بجٹ کا درست استعمال نہیں کرینگے تو نئے صوبے بنانے کی ضرورت پڑیگی۔